علی بابا اور چالیس چور

 Pin on kavi

یہ کہانی ہے کہ ایک دور کی بات ہے جب کسی دور کے جگہ پر ایک غریب لکڑھارے کا رہائی نامے علی بابا رہتا تھا۔ وہ ایک ادنی آدمی تھے جو جنگل میں لکڑھا کاٹ کر اپنی گزارا کشی کرتے تھے۔

ایک دن جب علی بابا جنگل میں کام کر رہے تھے، تو ایک گروہ چالیس چوروں کو دیکھا جو ہسپتال پر اٹھ کر آ رہے تھے۔ وہ ایک بڑے پتھر کے پاس رک گئے، اور ان کے رہنمائی کرنے والا ایک برا آدمی جس کا نام کاسم تھا، پتھر کے قریب پہنچا اور کہا: "کھل جا، سیسم!" علی بابا کی حیرانی کو دیکھتے ہی، پتھر جادو سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ایک چھپی ہوئی گفتگو کی کھچک میں خزانے کو ظاہر کر دیا۔

چوروں نے گفتگو میں داخل ہوگئے اور کچھ دیر بعد واپس نکل آئے اور کہا: "بند ہوجا، سیسم!" پتھر پھر سے بند گیا اور دوبارہ خزانے کی راہ میں رکھ دیا۔

علی بابا جو ایک درخت کے پیچھے چھپے تھے، ان چوروں کے چلے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ یقینی ہو گئے کہ وہ چلے گئے ہیں، تو وہ پتھر کے پاس پہنچے اور کہا: "کھل جا، سیسم!" پتھر نے فوراً دو حصوں میں تقسیم ہو کر خزانے کی راہ کھول دی۔ علی بابا نے خزانے میں داخل ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگے اور وہاں دیکھ کر تعجب کیا کہ ان کے سامنے کتنی شاندار دولتیں ہیں۔

وہ فیصلہ کیا کہ اپنے گھر والوں کی مدد کرنے کے لئے خزانے سے کچھ لے جائیں گے۔ علی بابا نے اپنی گدھی کو سونے اور چاندی کی سکوٹیں، قیمتی قیمتی جواہرات اور قیمتی ریشمی کپڑے سے بھر دیا۔ انہوں نے خزانے کو لکھڑیوں سے ڈھانپ دیا اور پیر سکون کے ساتھ خزانے سے باہر نکل گئے، اپنی یقین دلاتے ہوئے کہ وہ نے جاتے وقت "بند ہوجا، سیسم!" کہہ دیا ہے۔

علی بابا کے بھائی کاسم کو حیرانی ہوئی کہ علی بابا اچانک اتنا امیر کیسے ہو گئے۔ علی بابا، جو ڈرتا تھا کہ کاسم خزانے سے کچھ چر لے گا، اپنے دل کی بات کسم کے ساتھ کرتے ہوئے اپنا راز سنا دیا۔ لیکن کاسم علی بابا کی طرح محتاط نہ تھے۔ وہ اگلے دن خزانے کی طرف گیا اور اسے آسانی سے پہچان لیا۔ وہ چل کر کہہ دیا: "کھل جا، سیسم!" اور خزانے میں چلا گیا۔

کاسم نے طمع کے ساتھ دولت جمع کرنا شروع کیا۔ اس نے اپنے ذخائر کو سونے اور چاندی سے بھرا، لیکن وہ بھول گیا کہ خزانے سے باہر نکلنے کے جادوی الفاظ کیا تھا۔ پریشانی میں وہ چیخ کر کہا: "کھل جا، گندم!" اور "کھل جا، جو!" لیکن کچھ کام نہیں آیا۔

چوروں نے دوبارہ واپس آ کر اس کو پیش کیا اور اسے پکڑ لیا۔ جب تک کاسم کی جان بچی، انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ جب کاسم گھر نہیں واپس آیا، تو علی بابا پریشان ہوگئے اور خزانے کی طرف رفتے۔ وہاں پہنچ کر اپنے بھائی کے لاشیں پائی۔

شک کی اجتناب کے لئے، علی بابا نے اپنے بھائی کو خفیہ طور پر دفن کیا۔ وہ نے بھی کاسم کی خاندان کو اپنی حفاظت میں لیا تاکہ ان کا حفاظت ہو سکے۔

دوسری طرف، چوروں نے یہ تصمیم کیا کہ وہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کی خفیہ پناہ گاہ کو کون دیکھا تھا۔ انہوں نے خود کو تیل کے تاجر کی صورت بنا کر شہر میں چھپنے کی کوشش کی۔ ان کے رہبر کی ذکی اور ماہر رقبہ، مورگیانا، نے دیکھا کہ چوروں کی تیل کی چراغوں میں چھریاں چھپی ہوئی تھیں۔

مورگیانا نے ان کی پہچان کرنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے چراغوں کو گرم تیل سے بھر دیا اور ان چوروں کو ان میں ہی کش کر دیا۔ جب رہبر علی بابا کے گھر آکر اپنے گمشدہ لوگوں کی خبر پوچھنے آئے، تو مورگیانا نے ان کو دھوکا دیا اور ان کو بھی کش کر دیا۔

شہر، آخر کار، چالیس چوروں سے نجات پا گیا، علی بابا اور ان کے گھر والے خزانے کی لطف اٹھانے لگے، اور مورگیانا ان کے گھرانے کا قیمتی رکن بن گئی۔

اور اس طرح، علی بابا اور چالیس چور کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہوشیاری اور تدبیر سے ہم کتنے بھی مکار چوروں کو شکست دے سکتے ہیں، اور حرص منہ سوا کر سکتا ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post